شہادت کے مقابل رخ پر بھی اس کی چمک پیدا ہوتی ہے کیوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں۔
قلب کاجورخ عالم غیب کی طرف ہوتا ہے وہ وی اور الہام کامدخل ہے ۔ چوں کہ عالم شہادت سب کا سب متخیلات ہے اس لیے عالم شہادت کی طرف جورخ ہے اس میں کوئی صورت ظاہر نہوگی تو وہ صرف صورت متخیلہ ہوگی ۔ ہاں فرق یہ ہے کہ آدمی کا خیال جس سے متعلق رکھتا ہے اس لیے یہ صورت معنی یا سیرت کے مطابق نہیں ہوتی حتی کہ اگر خوبصورت شخص نظر آۓ تو وہ باطن کا خبیث اور دل کا برا ہوسکتا ہے کیوں کہ عالم شہادت ایک ایسا عالم ہے جس میں تکبیں کثرت سے واقع ہوتی ہے ۔ ہاں جوصورت عالم ملکوت کی روشنی میں دل کو حاصل ہوتی ہے وہ صفت اور سیرت کے مطابق ہوتی ہے کیوں کہ عالم ملکوت کی صورت سیرت ہی کے مطابق ہوتی ہے اس لیے جس کا باطن برا ہو گا اس کی صورت بھی بری نظر آۓ گی ۔ اس لیے شیطان کتے ، مینڈک اورسور کی صورت میں نظر آتا ہے اور فرشتہ خوبصورت دکھائی دیتا ہے ۔ یہ صورت گو یا باطن کا عنوان ہوتی ہے اور اس کے مطابق ہوتی ہے ۔ اس لیے خواب میں بندر اورسورد سیکھنے کی تعبیر خبیث آدمی ہوتی ہے ، بکری کوخواب میں دیکھنے کی تعبیر سلیم الطبع انسان سے دی جاتی ہے ۔ تمام خواہوں اور تعبیروں کا یہی حال حکمائے اسلام میں شیخ محی الدین ابن عربی المعروف بہ شیخ اکبر نے بھی خواب کوزیر بحث لایا ہے ۔
شیخ اکبر لکھتے ہیں کہ جان لو کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کرتا ہوں ۔ خواب حضرت خیال ہے حضرت ابراہیم نے اس کی تعبیر نہیں کی ۔ وو حضرت ابراہیم کے فرزند کی صورت میں مینڈھا تھا ۔ حضرت ابراہیم نے خواب کی تصدیق کی ۔ اللہ تعالی انھیں ذبح عظیم کافدیہ دیا جو اللہ کے نزدیک خواب کی تعبیر تھی ۔ حضرت ابراہیم نے ظاہر خواب پرعمل کیا خواب کی تعبیر نہیں کی ۔ اس لیے اللہ نے فرمایا اے ابراہیم تم نے خواب کو پچ کر دکھایا ۔ مینہیں فرمایا کہ تم خواب میں کچے تھے ( ۱ ) ۔ شیخ اکبر نے اندلس کے محدث تقی بن مخلد کا واقعہ بھی بیان کیا ہے جنہوں نے خواب کو
ظاہر پر محمول کیا ۔ ان کے پاس یہ حدیث تھی کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے بیداری میں دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا ‘ ‘ ۔ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دودھ کا پیالہ عطافر ما یا اور انھوں نے خواب کی تصدیق کے لیے قے کی ۔تے میں دودھ نکلا ۔ اگر وہ خواب کی تعبیر کرتے تو وہ دودھ علم تھا ۔ انھوں نے جتنا دودھ تے کیا اتناہی وہ علم سے محروم ہو کر رہ گئے ( ۱۳ ) ۔ شیخ اکبر کہتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ کوخواب میں دودھ کا پیالہ دیا گیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اتنا پیا کہ اس کی تری میرے ناخنوں سے نکلی ۔ پھر میں نے اپنا پس خورد و عمر کو دیا ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ؟ فرمایا ’ ’ علم ‘ ‘ آپ نے دودھ کو دودھ کی صورت پرنہ مچوڑا کیوں کہ آپ خواب کے محل اور تعبیر کے مقتضا سے باخبر تھے ( ۱۳ ) ۔ شیخ اکبر حضرت یوسف کے خواب کے بارے میں کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺﷺ پر وحی کی ابتدا رویاۓ صادقہ سے ہوئی ۔ جوخواب آپ دیکھتے تھے وہ صبح صادق کی طرح ظاہر ہوتے تھے ۔ یہ مدت چھ مابھی اس کے بعد فرشتہ اترا ۔ شیخ اکبر کا کہنا ہے کہ حضرت عائشہ کو معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ان الناس نيام فاذاما تواانتبهوا لوگ سوۓ ہیں جب مریں گے بیدار ہوں گے ۔ پس جتنی چیز میں آپ بیداری میں دیکھتے تھے کہ وہ سب اسی قبیل سے تھیں اگر چہ حالات مختلف ہوتے تھے ۔ پھر حضرت عائشہ کے قول کے موافق مچھ ماہ کہاں رہے بلکہ آپ ﷺ کی تمام عمر یہی حالت رہی اور اس قبیل کے جیتنے واقعات ہوتے ہیں ۔انھیں عالم خیال کہا جاتا ہے ۔ اس لیے ان کی تعبیر کی جاتی ہے یعنی جوفی نفسہ ایک صورت پر ہوتے ہیں مگر خواب میں وہ دوسری صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اس صورت سے جس کوسونے والا خواب میں دیکھتا ہے تعبیر بتانے والاعبور کر کے اس صورت کی طرف جاتا ہے جس پر وہ اصل میں
ہے ۔ بشرطیکہ وہ صحیح ہو ۔ جیسے علم کا ظہور دودھ کی صورت میں ہوا ۔ پھر اس دودھ کی صورت کی تعبیر علم کی صورت میں کی ۔ جب رسول ﷺ پری آتی تو آپ معمول کی محسوسات سے روک صل الله ۓ جاتے آپ پر کمبل اڑھادیا جا تا اور آپ ﷺ موجود حاضرین سے غائب ہو جاتے ۔ جب یہ حالت دور ہو جاتی تو آپ محسوسات کی طرف واپس لوٹاۓ جاتے ۔ آپ نے جو کچھ دیکھاعالم خیال میں دیکھا البتہ آپ کو خوابیدہ نہیں کہا جاسکتا ۔ اسی طرح جب فرشتہ آپ کے پاس متمثل ہو کر آدمی کی صورت میں آ تا تو وہ بھی عالم خیال تھا کہ وہ آدمی نہیں فرشتہ تھا ۔ انسان کی صورت میں آیا تھا ۔ مگر ناظر عارف صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر کی اور حقیقی صورت تک پہنچ گئے ۔ فرمایا یہ جبر میں میں تمہارے پاس دین سکھانے آئے تھے اور حاضرین سے فرمایا کہ اس آدمی کو میرے پاس لاؤ ۔ آپ نے اس صورت کے لحاظ سے جس میں وہ لوگوں کے پاس ظاہر ہوئے تھے ، ان کا نام آدمی رکھا ۔ پھر فرمایا کہ یہ جبر میں ہیں اس میں آپ نے اس خیالی آدمی کی طرف رجوع کیا یعنی جبر میں کہا ۔ آپ ﷺ دونوں باتوں میں کئے تھے ۔ آپ نے آنکھ کی بصارت کی تصدیق کی اور اس کی بھی تصدیق کی یہ جبر میں ہیں ( ۱۳ ) ۔ شیخ اکبر نے حضرت یوسف کے بارے میں کہا ہے کہ انھوں نے واقعہ کے آخر میں فرمایا " یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جو مجھے پہلے نظر آ یا تھا ۔ اللہ نے اس کوئی کیا ' ' ( القرآن ) یعنی اسے عالم شہادت میں ظاہر کیا بعد اس کے کہ وہ خیال کی صورت میں تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الناس نیام''حضرت یوسف کا یہ کہناقد جعلهاربی حقا اس لحاظ سے اس شخص کے کلام کے مماثل ہے جس نے خواب میں دیکھا کہ اس خواب درخواب سے وہ خواب ہی میں بیدار ہوا اور اس کی تعبیر بھی دی ۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ وہ ابھی نیند میں ہے اور جب وہ اصل میں جائے گا تو کہے گا کہ ایسا ایسا خواب دیکھا اور خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں خواب سے بیدار ہوا اور اس خواب کی تعبیر دی ہے ۔ پس تم دیکھو کہ حضرت محمد ﷺ کے ادراک اور حضرت یوسف کے ادراک میں جب انھوں نے کہا تھا " هـذا تـاويـل رویای من قبل قد جعلها ربي حقا میں کتنا فرق ہے ۔ اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے اسے عالم شہادت میں ظاہر فر ما یا حالانکہ عالم
112 خیال کے یہ صور پہلے ہی محسوسات میں تھے ۔ خیال ہمیشہ محسوسات کا تصور دیتا ہے یعنی خیال کی اصل محسوسات ہوتی ہے ۔ اس کے سوا کچھ نہیں ۔ پس تم دیکھو کہ حضرت محمد ﷺ کے وارثوں کا علم کتنا اشرف ہے ( ۱۵ ) ۔ دوسرے صوفیہ کی طرح نجم رازی المعروف بہ نجم الدین دایه ( المتوفی ۲۵۴ ۵۰ / ۱۲۵۶ ) نے بھی اپنی مشہور تصنیف ’ ’ مرصادالعباد ‘ ‘ میں خواب پر روشنی ڈالی ہے ۔ موصوف فصل کے آغاز میں سورہ یوسف کی آیت ۴ اور رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث کہ رویاۓ صالحہ نبوت کے چھیالیس اجزا میں سے ایک جڑ سے نقل کی ہے ( ۱۱ ) ۔ نجم رازی کا بیان ہے کہ سالک جب مجاہدہ اورنس کی ریاضت سے دل کا تصفیہ شروع کرتا ہے تو اسے ملکوت پر عبور حاصل ہوتا ہے اور اس کے مناسب حال ہر مقام پر کشف کے وقائع ظاہر ہوتے ہیں کبھی یہ کشف صالح خواب کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی واقعہ نہیں ہوتا ہے { ۱۷ } ۔ واقعہ پر روشنی دالنے کے بعد نجم رازی نے خواب پر بحث کی ہے اور ان کے بقول خواب وہ چیز ہے کہ حواس بکلی برکار ہوتے ہیں اور خیال کام کرتا ہے ۔ نیند کے غلبے کے دوراں چیز نظر آتی ہے ۔اس کی دولت میں ہیں ۔ ایک اضغاث واحلام ہیں ۔ روح بانفس خیال کے واسطے سے ان شیطانی وساوس اور نفسانی ہوا جس کا ادراک کرتی ہے جونفس اور شیطانی کی طرف سے القاہوتے ہیں ۔خیال ان کی نقش بندی مناسب صورت میں کرتا ہے اور روح یانفس کو دکھا تا ہے ان کی تعبیر نہیں ہوتی ۔ یہ خواب پراگندہ اور پریشان ہوتے ہیں ۔ ان سے پناہ مانگنا واجب ہے اور انھیں کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے ( ۱۸ ) ۔ دوسرا خواب ایک ہوتا ہے جسے رویاۓ صالح کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ثبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے بعض ائمہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ رسول اللہ کی مدت نبوت تئیس سال تھی ان برسوں میں پہلے چھ ماہ میں آپ پروٹی خواب میں آتی تھی ۔ اس حساب سے صالح خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں ایک جز ہوتا ہے
۱۱۸ بہت سے انبیاء گزرے ہیں کہ ان کی پوری وحی خواب میں ہوتی تھی اور بعض ایسے گزرے ہیں کہ ان پر وحی کبھی خواب میں نازل ہوتی تھی اور بھی بیداری میں ۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم نے کہا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں آپ کو ذبح کرتا ہوں پس تمہاری کیا راۓ ہے ؟ ابراہیم پر خواب میں وحی آئی کہ بیٹے کو ذبح کرو اور اس کے وہی ہونے کی دلیل ہے کہ ان کے بیٹے نے کہا اے میرے باپ آپ کو جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اسے انجام دیئے ۔ رسول اللہ کا فرمان ہے ' ' نوم الانبیاء ولی''انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں { 19 } نجم رازی کا بیان ہے کہ صالح خواب کی تین قسمیں ہیں ۔ایک خواب وہ ہے جو تاویل و تعبیر کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ بعینہ ظاہر ہوتا ہے جیسے حضرت ابراہیم کا خواب صریح تھا ، دوسرا خواب وہ ہے جس کا کچھ حصہ تعبیر کا محتاج ہوتا ہے اور کچھ حصہ بعینہ ظاہر ہوتا ہے جیسے حضرت یوسف کا خواب تھا میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو دیکھا میں نے انھیں سجدہ کرتے ہوۓ دیکھا ' ' ۔ گیارہ ستارے اور چاند سورج تو تعبیر کے محتاج تھے مگر سجدہ بعینہ ظاہر ہوا ۔ تعبیر کی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑے ‘ ‘ تیسرا خواب وہ ہے جو پورے کا پورا محتاج تاویل ہوتا ہے ۔ جیسے بادشاہ کا خواب تھا کہ میں سات موٹی کا نئیں دیکھتا ہوں ‘ ‘ ۔ یہ خواب پورے کا پورا محتاج تاویل تھا ۔ اس طرح قیدیوں کے خواب تھے جوتعبیر کے محتاج تھے ’ ’ اے میرے قیدی رفیقو ! تم میں ایک تو اپنے آقا کوشراب پلائے گا اور دوسرا مصلوب ہوگا اس کے سر کو پرندے او پی کھائیں گے ۔ ( ۲۰ ) نجم رازی کا کہنا ہے کہ صالح خواب کا اثر ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ خواب مؤمن بھی دیکھتا ہے اور کافر بھی ۔ جیسے مصر کے بادشاہ اور قیدیوں نے دیکھا تھا ۔ یہ خواب دل کی نگاہ سے ہوتا ہے اور اس میں روح کے نور کی تائید ہوتی ہے مگر نورالہی اس کے شامل حال نہیں ہوتا { ۲۱ } ۔ نورالہی جس خواب کی تائید کرتی ہے اسے سوائے مؤمن ، ولی اور نبی سے کوئی نہیں دیکھتا ۔ صالح خواب نبوت کا جز ہوگا اور کافر کے لیے نبوت کا کوئی جز نہیں ہوتا اور اس کی تائید رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہیں گے جنہیں .
Next part is coming soon🔜

.jpeg)
