Part: 2
دوسراحصہ
خون پیپ ، اور نہ جانے کیسے کیسے درناک عبرتناک اور وحشتناک سزائیں مقرر کر رکھی ہیں ، جن کے تصورہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
( اعاذنا الله منه ) ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ایسا گھر ہے جس میں دہکتی آگ ہوگی ، سانپ بچھو ہوں گے ، اور قسم قسم کے عذاب ہوں گے اس کو''جہنم ' ' ' دوزخ''یا'نار ' کہا جا تا ہے ۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ نفع بخش چیزوں کی طرف لپکتا اور مضرت رساں چیزوں سے دور بھاگتا ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی نگاہ مادی نفع یا ضرر پر زیادہ اور روحانی و معنوی چیزوں پر کم رہتی ہے ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ مختلف پیرایوں اور مؤثر و دلکش انداز واسلوب میں اس کے سامنے جنت کی حقیقت ، اس کی نعمتوں کا تذکرہ اور اس کی افادیت واہمیت کو واضح کیا جائے تا کہ اس کے دل میں حصول جنت کا شوق اور ولولہ پیدا ہواور وہ اس کے لئے ہر تم کی جانی ومالی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاۓ ۔ ۱۹۹۸ ء یا ۱۹۹۹ ء کی بات ہے کہ میں نے زیر نظر ترجمہ کی اصل کتاب حـادي الارواح الى بلاد الافراح ' ' کا مطالعہ شروع کیا ، اس وقت میرا مدینہ یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے اخیر کا دور تھا ، اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے محسوس ہوا کہ مصنف کتاب علامہ ابن قیم نے جنت اور اہل جنت کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کا بڑا ذخیرہ اس کتاب میں جمع کر دیا ہے جو شایداتنی وسعت و جامعیت کے ساتھ کسی اور کتاب میں نہ ملے ، اگر چہ اس موضوع پرلکھی گئی تمام کتابیں قابل قدر ہیں ، مگر اس کتاب کی اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے فوراً میرے دل میں خیال آیا کہ اگر پوری کتاب کا لفظ بلفظ ترجمہ نہ سہی تو کم سے کم اس کا خلاصہ اور عطر اردو میں منتقل کر دیا جاۓ تا کہ اس کی خوشبو سے اردو داں طبقہ بھی رد ۲۱
Step: 2
اپنے مشام جاں کو معطر کر سکے ، اللہ کا نام لیکرتر جمہ تلخیص کا کام مدینہ یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانہ ہی سے شروع کر دیا پھر وہاں سے فراغت کے بعد جب دارالعلوم سبیل السلام سے وابستہ ہوا تو تعلیمی وتدریسی مصروفیات اور انتظامیہ جامعہ کی طرف سے مفوضہ امور انجام دینے کے بعد جو تھوڑا بہت وقت ملتا اس میں بحمد للہ اس سلسلہ کو جاری رکھا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ اس نے ہیچمداں کی بے بضاعتی اور عدیم الفرصتی کے باوجود اس کام کی تکمیل کرادی ۔ جو کچھ ہوا ہوا کرم سے تیرے جو کچھ ہوگا تیرے کرم سے ہوگا اس کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے مختلف عناوین قائم کر کے ان کے تحت پہلے قرآن کریم کی آیات جمع کیں پھر ان سے متعلق صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث سے مرفوع اور موقوف روایات ذکر کیں اور ان پر محدثانہ شان اور واعظانہ انداز سے گفتگو کی ، انہوں نے بہت سی جگہ حدیثوں کی سند پر بھی فنی بحث کی جس سے اردو ترجمہ وتلخیص میں تطویل کے ڈر سے گریز کیا گیا ، بیشتر مقامات پر مصنف رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی مفہوم کی کئی کئی روایات ذکر کی ہیں ، ترجمہ میں اصح ترین روایت یا کسی ایک تفصیلی روایت پر بوجہ اختصار اکتفا کیا گیا ، قرآن کریم کی آیات میں بی التزام کیا گیا کہ دا ہنی طرف آیات کو اعراب ( حرکات وسکنات ) لگا کر لکھا گیا اور اس کے بالمقابل اردوترجمہ لکھ دیا گیا تا کہ پڑھنے میں سہولت ہو ، اسی طرح صحیحین ( بخاری ومسلم کی روایات کو بھی داہنی طرف اور ان کا ترجمہ بالمقابل لکھا گیا ، بقیہ کتب احادیث کی روایات کا یا تو صرف ترجمہ ذکر کر دیا گیا ، یا ان کا مفہوم بیان کر دیا گیا ، البتہ اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ جو آیت یا حدیث یا اس ۲۲ 1
Step: 3
کا مفہوم اس کتاب میں آۓ اس کا مختصر حوالہ ذکر کیا جاۓ ، میرے سامنے ترجمہ کے لئے اصل کتاب کا جونسخہ رہا ہے وہ ” دارالمعرفۃ ، بیروت لبنان ' ' کا چھپا ہوا ہے اس نسخہ میں قرآنی آیات پر اعراب ، ان کا حوالہ اور احادیث کی تخریج کا کام دوممتاز عرب عالم عبدالرحمن الاذقی اور حیات شیحا الاذقی نے انجام دیا ہے ، ترجمہ میں ان کے دئے گئے حوالوں اور احادیث کی تخریج کو بالاختصار ذکر کر دیا گیا ہے ، بہر حال اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ متوازن اختصار تلخیص کے ساتھ منصف کی جمع کردہ معلومات ، ان کا جذ بہ کروں ، ان کا پیغام اور مقصد کتاب لوگوں تک پہونچا دیا جاۓ ، تا کہ ان میں جنت کا شوق اور ولولہ پیدا ہو ، جہنم سے بچنے کی فکر ہو ، دل پر رقت اور خشیت کا غلبہ ہو ، مادہ پرستی اور دنیا طلبی سے دوری ہو ، اور خوشی وغم میں اعتدال وتوازن ، صبر و استقامت اور تشکر و امتنان کی زندگی گذارنے کی عادت ہو ۔ ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزہ دیکھ دنیا ہی میں بیٹھے ہوۓ جنت کی فضا دیکھے اپنی ادنی سی اس کاوش کی تکمیل پر سب سے پہلے میں اللہ تعالی کا شکر بجالاتا ہوں جس کے فضل و کرم اور بے پایاں رحمت کی بنا پر بیعا جز اس کتاب کا ترجمہ کرسکا ، پھر اپنے والد مرحوم اور والدہ محترمہ ( اطال الله بقاء ها ) کے لئے دنیا وآخرت میں رفع درجات کی دعا کرتا ہوں کہ ان کی تادیب وتربیت کے نتیجہ میں مجھے علم دین کی نسبت حاصل ہوئی ، اس کے بعد برادر نظم جناب نجم الحسن صاحب اور برادر مکرم جناب شمس الدین صاحب کا شکر بی ادا کرتا ہوں جن کی خصوصی دلچسپی اور مالی تعاون سے میرے لئے حصول تعلیم کا مرحلہ طے ہوسکا ، فجزا هما الله خير الجزاء۔ای طرح اپنے اساتذہ کرام اور جملہ حسنین خاص طور پر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی
Step: 4
ندوی مدظلہم العالی ( ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ، وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ) اور حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتہم ( مہتم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ وایڈ یٹر عربی ماہنامہ ' البعث الاسلامی ' ' لکھنو ) کے لئے دعا گوں جنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی اور اپنے علم وفن کے سرچشموں سے خوب خوب استفادہ کا موقع دیا ۔ حضرت مولانا مفتی محمد مصطفی مفتاحی دامت برکاتہم ( استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم سبیل السلام ، حیدرآباد ) بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے مسودہ پر نظر ثانی فرمائی اور اس کے نوک و پلک کو درست کیا ۔ اس طرح میں محترم مولانا محمد احسان صاحب سبیتی کی دل سے قدر کرتا ہوں کہ انہوں نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے کمپوزنگ وغیرہ کا کام بحسن و خوبی انجام دیا ، فجزاهما الله خير الجزاء ۔ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس موقع پر دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباداور اس کے بانی و ناظم حضرت مولا نا محمد رضوان القا می دامت برکاتہم کا شکریہ ادا نہ کیا جاۓ ، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اس کی اشاعت کا ذمہ لیکر مجھ ادنی طالب علم کی ہمت افزائی کی بلکہ اس کتاب پر پیش لفظ لکھ کر ایک عظیم احسان فرمایا ، حقیقت یہ ہے کہ جب سے میں دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد سے وابستہ ہوا ( ۱۹۹۹ ء ) اس وقت سے اب تک ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ، سیکھ رہا ہوں اور زندگی نے وفا کی تو ان شاءاللہ سیکھتار ہوں گا ، وہ میرے اگر چہ رسمی استاد نہیں ہے ، مگر ہمیشہ مشفق استاذ اور حسن مربی کی طرح مختلف حیثیتوں سے میری اصلاح فرماتے رہے اور اپنے تعلیمی علمی عملی اور زندگی کے مختلف تجربات ، مشاہدات اور احساسات سے استفادہ کا موقع دیتے اللہ جزائے خیر دے محترم جناب سلمان صاحب ( مقیم دبئی ) کو جن کی ۲۴
Step: 5
خصوصی عنایت اور تعاون سے یہ کتاب مرحلہ طباعت طے کرسکی ، میں دل کی گہرائی سے ان کا شکر گزار ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کو دنیا وآخرت کی ترقیات سے نوازے ، ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے ، اورمکمل صحت و عافیت ، حسن عمل اور خوشحالی وفراخی کے ساتھ ان کی زندگی میں برکت دے آمین ۔ اخیر میں قارئین سے گذارش ہے کہ اگر ترجمہ کتاب میں کہیں کوئی کوتاہی یا نقص نظر آئے تو اسے بشریت کے ناطے مترجم کی تقصیر مجھ کر اس سے مطلع کر دیں ، تا کہ آئندہ اس کی تلافی ہو سکے ، اور اگر اس میں کوئی خوبی نظر آۓ تو اسے اللہ کا فضل پھر مصنف کتاب ( علامہ ابن قیم ) کے اخلاص وللہیت کی برکت سمجھیں ، اور دعاء کر میں کہ اللہ تعالی اس کتاب کو مصنف ، مترجم اور قارئین سب کے لئے بہر طور مفید و نافع بناۓ اور آخرت میں مغفرت ورفع درجات کا سبب بناۓ آمین ۔ وصلى الله على خير خلقه محمد وعلى آله وصحبه وسلم دارالعلوم سبیل السلام ، حیدرآباد خورشید انورندوی مدنی ( استاذ تفسیر وادب عربی دار العلوم سبیل السلام ، حیدرآباد ) ۱۴۲۴
/ ۷ / ۳ ھ ۲۰۰۳ / ۹ / ۱ ء ۲۵
Step: 6
کچھ مصنفین کے نام، کنیت اور مختصر نسب کے بارے میں: شمس الدین (کنیت) ابو عبداللہ (کنیت) محمد (نام) بن ابوبکر بن ایوب بن سعد بن حارث الزراعی دمشق۔ مشہور نام: ابن قیم الجوزیہ، آپ اس نام سے مشہور ہوئے کیونکہ آپ کے والد ابو بکر بن ایوب "مدرسہ جوز یہ" کے نگراں تھے۔ "قیم" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نگران کے ہیں یہ مدرسہ علامہ محی الدین ابو المحسین یوسف بن عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزی (متوفی 3 ہجری) نے 5 ہجری میں قائم کیا تھا۔ سال ولادت: علامہ ابن القیم کی ولادت 8 صفر ہجری کو حوران کے ایک قصبے زارا میں ہوئی جو دمشق سے 3 میل مشرق میں ہے۔ دمشق کی طرف ہجرت اور تعلیم: کچھ عرصہ بعد وہ حوران سے دمشق آئے اور پوری تندہی اور دلچسپی کے ساتھ تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔
Step:7
اساتذہ : آپ نے اپنے زمانہ کے بلند پایہ اصحاب علم وفضل اور ماہرین آداب وفنون سے کسب فیض کیا جن میں قابل ذکر یہ ہیں : ا ۔ شیخ الاسلام احمد بن عبد الحليم المعروف بابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ( م ۷۲۸ ھ ) ، ابن قیم نے ان سے نہ صرف اصول اور فقہ میں استفادہ کیا بلکہ ان سے شدید محبت وعقیدت کی بنا پر مختلف آزمائشی مراحل میں ان کا ساتھ دیا ، یہاں تک کہ جب بعض نظریاتی وعقائدی تنازع کی وجہ سے جیل میں ڈالے گئے تو ابن قیم علیہ الرحمہ نے وہاں بھی ان کی رفاقت نبھائی ۔ ۲۔ خودان کے والد بزرگوار جناب ابوبکر بن ایوب علیہ الرحمہ ، ان سے علم الفرائض ( ترکہ کی تقسیم کا علم حاصل کیا ، ان کے والد بڑے پایہ کے عالم تھے ، خاص طور پر علم الفرائض میں بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے بقول وہ بڑے عبادت گزار اور تکلفات سے نہایت دور تھے ، ان کی وفات ۷۲۳ ھ میں ہوئی ۔ ۳۔ حدیث کا علم آپ نے شہاب النابلسی ، قاضی تقی الدین بن سلیمان ، ابوبکر بن عبدالدائم عیسی المطعم ، اسماعیل بن مکتوم اور فاطمہ بنت جو ہر وغیرہ سے حاصل کیا ۔ ۴ ۔ غربی زبان وادب کے سلسلہ میں ابوالفتح البعلی اور شیخ مجد الدین تونسی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا ۔ لانه : علامہ ابن القیم علیہ الرحمہ کے چشمہ علم وفضل سے بے شمارتشنگان علم و دین نے سیرابی حاصل کی ، اور وہ اس آفتاب علمی کی کرنوں سے فیضیاب ہوکر علوم وفنون کے ۲۷
Step:8
افق پر اپنے اپنے زمانہ میں روشن ستارے بن کر چمکے ، ان میں سے چند مشہور ترین شاگرد یہ ہیں : ا ۔ الامام الحافظ زین الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد بن رجب البغدادی ثم الدمشقی ، انہوں نے حدیث ، فقہ اور تاریخ میں بڑی مفید اور گرانفذر کتابیں لکھیں ، ان کی وفات ۷۹۵ ھ میں ہوئی ۔ ۲۔ حافظ عمادالدین بن عمر بن کثیر البصری ثم الدمشقی ، جو تفسیر القرآن العظیم المعروف ب ’ ’ تفسیر ابن کثیر ‘ ‘ اور ’ ’ البدایۃ والنہایۃ ‘ ‘ جیسی عظیم کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی وفات کے ھ میں ہوئی ۔ ۳۔ حافظ شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد المعروف بابن قدامہ المقدی الحنبلی علیہ الرحمۃ ، وہ بھی حدیث وعلوم حدیث سے بڑا اشتغال رکھتے تھے ، عظیم مصنف تھے ۷۴۴ ھ میں وفات ہوئی ، ۴ ۔ علامہ شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن عبد القادر النابلسی الحنبلی علیہ الرحمۃ ( م 494 ھ ) ۔ ۲،۵ ۔ آپ کے شاگردوں میں خود آپ کے فرزندابراہیم اور عبداللہ ہیں ، انہوں نے فقہ اور عربی علوم و آداب میں آپ سے استفادہ کیا ، اور والد بزرگوار کی وفات کے بعد ان کی جگہ پر مدرسہ صدریہ میں تدریسی فرائض انجام دئے ۔ تصانف : علامہ ابن القیم علیہ الرحمۃ کا اسلوب نگارش بڑاعلمی ، سنجیدہ اور پر وقار ہونے کے ساتھ ساتھ ادب و بلاغت کی چاشنی اور تعبیرات کی دلآویزی لئے ہوۓ ہے ، ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود بڑی طاقتور اور مؤثر ۲۸
Step:9
ہوتی ہے ، ان کی زیادہ تر تحریر میں ' ' از دل خیز د بردل ریز ڈ ' کا صحیح مصداق ہیں ، زیادہ تر تصانیف پر علمیت کی چھاپ اور محدثانہ رنگ غالب ہے ، مثالوں اور محاورات کے ذریعہ معنوی چیزوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ عقل و تصور کے نہایت قریب ہو جاتی ہیں اور محسوسات کی طرح یقینی معلوم ہوتی ہیں ، انہوں نے حدیث ، سیرت ، تاریخ ، مناظرہ ، فرق باطلہ اور اکثر علوم وفنون میں نہایت مفید اور معلومات سے لبریز تالیفات رقم فرمائی ہیں ، ان کی زیادہ تر تحریر میں جہاں اخلاقیات اور معاشرتی اصلاح سے متعلق ہیں وہیں ان تمام فرقوں تنظیموں اور جماعتوں پر نشتر لگاتی ہیں جو ان کی تحقیق کے مطابق دین مستقیم کی راہ اعتدال سے منحرف ہوگئی ہیں ۔ تصوف کی مخالفت کے باوجود ان کی کتابوں سے ان مقاصد واغراض کی اہمیت جھلکتی ہے جو تصوف کے بنیادی اجزاء ہیں ، انہوں نے ساٹھ سے زائد کتابیں لکھیں ، جن میں بعض مطول ، بعض متوسط اور بعض مختصر ہیں ، ذیل میں ہم ان کی چند اہم مشہور کتابوں کا ذکر ا جمالا فن وار کرتے ہیں ۔ ا ۔ فقہ اور اصول فقہ میں''اعلام الموقعين عن رب العالمین “ ، الطرق الحكمية في السياسة الشرعية ' ' ' ' اغاثة اللهفان في مكائد الشيطان ' ' ' ' تحفة المودود في احكام المولود ' ' ' ' ' احكام أهل الذمة ' ' اور ' ' الفروسية ' ' وغیرہ ۔ ۲ ۔ حدیث اور سیرت میں ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں ’ ’ تهذیب سنن ابی داود و ایضاح علله و مشکلاته “ اور ” زاد المعاد في هدى خير العباد ‘ ‘ ہے ۔ ۳ ۔ عقائد و فرق سے متعلق ان کی تصنیفات یہ ہیں ’ ’ اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة والجهمية " ، " الصو ۲۹
Step:10
المرسلة على الجهمية والمعطلة " شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل " ، " هداية الحياري من اليهود والنصاری “ ، اور زیر نظر ترجمہ کی اصل کتاب''حادی الارواح الى بلاد الافراح ' ' ، اس کے علاوہ کتاب الروح ' ' بھی ان کی اس فن میں ایک مہتم بالشان تصنیف ہے ۔ ۴۔ زہد وتقوی اور اخلاقیات و مواعظ میں انہوں نے ' ' مدارج السالكين ' ' ، عدة الصابرين و ذخيرة الشاكرين “ ، ” الداء والدواء " ، " الوابل الصيب من الكلم الطيب " ، وغیرہ تصنیف فرمائیں ۔ ۵ ۔ متفرق علوم میں''التبيان في اقسام القرآن " ، " بدائع الفوائد ' ' ' ' الفوائد ' ' ' ' جلاء الافهام في الصلاة والسلام على خیر الانام ' ' ، ' ' روضة المحبين " ، " طريق الهجرتين و باب السعادتين " ، " مفتاح دارالسعادة “ اور بہت سی نفع بخش تصانیف یادگار چھوڑیں ۔ علمی مقام : او پر جن تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے اس سے میرا ندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ علامہ ابن القیم علیہ الرحمہ کا علمی مقام کتنا اونچا تھا اور اللہ تعالی نے ان کومختلف النوع علوم وفنون اور آداب سے کتنا نوازا تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ بے شمار اصحاب علم وفضل اور اہل قلم نے ان کی شان میں اچھے خیالات کا اظہار کیا اوران کی علمیت اور فضل و کمال کا دل کھول کر اعتراف کیا ۔ علامہ ذمی نے ان کے بارے میں فرمایا : ' ' آپ حدیث ، متون حدیث اور بعض رجال حدیث پر بڑی توجہ دیتے تھے ، فقہ سے بھی