Janat aur ehel janat kitab vsunat ki rosny mean

 





پیش لفظ اللہ تعالی نے اس دنیا کو بسایا اور حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے انسانی آبادی کا آغاز فرمایا ، حضرت آدم پہلے انسان بھی ہیں اور پہلے نبی بھی ، ان کے بعد حضرت حوا زوجہ محترمہ کی حیثیت سے آتی ہیں اور دونوں کے ملاپ سے انسانی کارواں بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا تا ہے اور اس وقت ایک اندازہ کے مطابق چھ ارب سے زیادہ انسان دنیا میں رہتے اور بہتے ہیں ، ظاہر ہے یہ انسانی آبادی بڑھے گی اور موجودہ شرح میں اضافہ در اضافہ ہی ہوتا چلا جاۓ گا ، اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ سے اس کائنات کے نظام کو بر پا فر مایا جس کا عظیم تر حصہ جن وانس ہیں ، اور جن وانس کی پیدائش کو تمام مخلوقات میں فضیلت اور برتری حاصل ہے ، اور اس میں بھی انسان کا مقام ومرتبہ اعلی و ارفع ہے جو " ولقد كرمنا بنی آدم " ( الاسراء : ۷۰ ) اور " لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقويم " ( التين : ۴ ) سے ظاہر ہے ، یہ تو انسان کی تخلیق کی عمومی حیثیت ہوئی تاہم اسے بارگاہ خداوندی سے خلافت کی خلعت بھی عطا کی گئی ، یہ خلافت اسے زیادہ تر حاصل ہوگی جو اپنے آپ کو خدائی رنگ میں رنگے گا " صبغة الله ومن أحسن من الله صبغة اور تخلقوا بأخلاق اللہ کے سا نچے میں اپنے آپ کو ڈھالے گا ، سیاسی وقت



423 ن ہے جب کہ اس کے اندر جذبہ عبودیت ہواورعبد بن کر معبود حقیقی کے سامنے سربجو دہو ، اور اس کی رضا اور خوشنودی کا تابع ہو ۔ اس موقع پر اس حقیقت پر نظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالی کی مرضیات اور نامرضیات کا علم ایک انسان بطور خود حاصل نہیں کر سکتا ، اس کے لئے اللہ نے فرشتوں اور رسولوں کا سلسلہ جاری فرمایا ، رسولوں میں سب سے آخری رسول حضرت محمد ﷺﷺ ہیں ، آپ سے پہلے جتنے رسول آۓ وہ سب اور آپ اپنے اپنے دور اور زمانہ میں اللہ کی مرضیات اور نا مرضیات کو بتاتے ، اور مرضیات پر چلنے اور نامرضیات سے بچنے کی تلقین کرتے اور دعوت دیتے رہے ، جنہوں نے بات مان لی و مطیع وفرماں بردار کہلاۓ اور جنہوں نے بات نہیں مانی وہ کافر ومشرک شہرائے گئے ، بس جنت نام ہے اللہ کی''مرضیات ' ' کے گھر کا اور دوزخ جسے کہتے ہیں وہ اللہ کی ' ' نا مرضیات ' ' کی جگہ ہے ، ایک وقت آۓ گا کہ جنت اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوگی اور دوزخ پوری ہولنا کیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوۓ سامنے آئیگی ۔ قیامت کے دن جنت کا ماحول بڑا پر کیف مسرت آگیں اور نہایت خوشنما ہوگا ، دخول جنت کے وقت اہل جنت کا کس طرح اعزاز واکرام ہوگا اور ان کا استقبال فرشتے کس انداز میں کر لیں گے اس کی ایک جھلک آپ ان آیات میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں : وسيـق الـذيـن اتـقـوا ربهم إلى اور جولوگ اہل تقوی ہیں وہ جنت کی الـجـنة زمراً حتى إذا جاء وها طرف گروہ گروہ روانہ کئے جائیں گے وفتحت أبوابها وقال لهم خزنتها یہاں تک کہ جب اس کے پاس ۱۳




سلام سـيــم صبتم فادخلوها پہونچیں گے تو اس حال میں جائیں گے خليين ، وقالوا الحمد لله الذی کہ اس کے دروازے کھلے ہوں گے اور صدقنا وعدة وأورثنا الأرض وہاں کے محافظ ان سے کہیں گے تم پر نتبوأمن الجنة حيث نشاء فنعم سلامتی ہو ، مزہ میں رہو ، سو اس میں أجر العاملين . ہمیشہ کے لئے داخل ہو جاؤ اور وہ کہیں ( الزمر : ۷۳-۷۴ ) کے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا مالک کر دیا ، کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کر لیں تو غرض کہ مل کرنے والوں کا کیسا اچھا انعام ہے ۔ قرآنی ترتیب کے اعتبار سے سورہ یونس کا نمبر دسواں ہے ، اس دسو میں سورہ کی دسویں آیت میں اہل جنت کا یہ حال بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ جنت میں اطمینان سے بیٹھ لیں گے اور دنیا کی فانی لذتوں کا مقابلہ وہاں کے دائمی عیش وسرور سے کریں گے یا دوسرے لفظوں میں منزل مقصود پر پہنچنے سے جو سچی مسرت اور روحانی خوشی انہیں حاصل ہوگی اور جنت کے عجائب اور اس کی بہار کا دفعۂ معائنہ کر لیں گے تو بے اختیاران کی زبانوں پر بینعرہ ہوگا " سبحانك اللهم " پاک ہے تو اے اللہ ۔ ی تو خدائے ذوالجلال اور اس کی بنائی ہوئی جنت کے بارے میں اہل جنت کی وجدانی کیفیت ہوگی اور زبان پر بے ساختگی کے ساتھ " سبحانك اللهم " کا مقدس کلمہ ہوگا ، اس کلمہ سے بتانا مقصود یہ ہے کہ اہل جنت کو جنت میں ہر راحت ، اور ہر مطلب کی چیز من مانے انداز سے خود بخودحاصل ہوگی کسی چیز کو مانگنے اور 137 425




⠀⠀ 14/425 خواست سرورت ہی نہ ہوگی ، اس لئے درخواست وطلب اور معروف دعا کے قائم مقام ان کی زبانوں پر صرف اللہ کی تہیج ہوگی اور وہ بھی دنیا کی طرح کوئی فریضہ عبادت ادا کرنے کے لئے نہیں بلکہ وہ اس کلمہ نیچ سے لذت محسوس کریں گے اور اپنی خوشی سے " سبحانك اللهم " کہا کریں گے ، جنت میں " سبحانك اللهم “ کے بعد دوسری طرف ' ' سلام ' ' کا ماحول ہوگا ( وتحيتهم فيها سلام ۔ اور ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ' ' ہو ) سلام کا لفظ اگر چہ دنیا میں دعاء ہے لیکن جنت میں پہنچ کر تو ہر مطلب حاصل ہوگا ، اس لئے وہاں یہ لفظ دعاء کے بجاۓ خوش خبری کا کلمہ ہوگا ، سلام کے کلمہ سے یہ خوش خبری دی جائے گی کہ تم یہاں پر ہر تکلیف اور نا گوار چیز سے سلامت رہوگے ، یہ خوش خبری اللہ کی جانب سے بھی ہوگی ، فرشتوں کی طرف سے بھی اور جنتیوں میں باہمی طور پر بھی ۔ جنت کے مقدس ، پاکیزہ اور دل آویز ماحول میں جنتیوں کی زبان پران دو کلموں کے ساتھ جو آخری کلمہ ہوگا ، اس کا ذکر قرآن کریم نے ان الفاظ میں کیا ہے " وآخـر تغـواهـم أن الحمد لله رب العالمين " ( یونس : ۱۰۔اور ان کی دعاء کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ سب خوبی اللہ کے لئے ہے جو پروردگار ہ ے سارے جہاں کا ) اگر غور سے دیکھا جاۓ تو انسان کا اصل وطن ' ' جنت ' ' ہی ہے ، اس لئے کہ اس کے جد امجد حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت ہی سے دنیا میں تشریف لاۓ تھے ، اور اگر دم لے کر آگے بڑھتے ہوۓ وہ جنت میں جا تا ہے تو گویا اس کی حیثیت اپنے قیقی وطن کی طرف کوچ کرنے کی ہے اور دوزخ جو کہ خدا کی نامرضیات کی جگہ ہے وہاں اگر کوئی انسان پہونچتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ منزل کی طرف چلنے کے بجاۓ اس نے درمیان میں اپنی راہ گم کر دی ہو ، اور بھٹک کر صحرا ، بے آب و گیاہ ۱۳





زمین میں پہونچ گیا ہو جہاں ظلمت ہی ظلمت ہے ، تاریکی ہی تاریکی ہے ، بھیا تک گڑھے اور حد درجہ تکلیف اور اذیت سے بھرے ہوئے مقامات ہیں ، اب فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ انبیاء کی بتائی ہوئی راہوں اور لائی ہوئی کتابوں پر چل کر جنت میں اپنا مقام بنا تا ہے یا دوزخ میں بینی ۔۔ فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ایک اہم ترین موضوع پر اہم ترین شخصیت کی اہم ترین کتاب ہے ، اس موضوع پر چھوٹی بڑی مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں ، مگر جس کمال و تمام علم وتحقیق ، باخبری اور واقفیت کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے اس سے مصنف ( علامہ ابن قیم الجوزی ) کے اونچے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے ، پھر یہ کہ تحریر کا انداز ، اس کی ترتیب اس قدر دلکش ، جاذب نظر اور روحانیت سے لبریز ہے کہ ' از دل خیز د بر دل ریز ڈ ' کا محاورہ صادق آتا ہے ، ضرورت تھی کہ علم و معرفت سے لبریز اس کتاب کو اردو کا پیرہن دیا جاۓ ، محترم مولانا خورشید انور ندوی مدنی ( استاذ تفسیر و حدیث و ادب عربی دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد ) نے اسے محسوس کیا اور نہایت قابلیت اور صلاحیت سے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ تلخیص کیا ، مولاناعالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم ندوالعلماء لکھنو کے فارغ تحصیل ہیں ، جامعہ اسلامیہ مد مینہ منرۃ ( مدینہ یونیورسٹی ) جیسی عظیم اسلامی درسگاه سے بھی پانچ سال تک مسلسل کسب فیض کیا ہے ، ان دونوں عالی نسبتوں نے ان کے اندر علی ہمت پیدا کیا ، اور پوری مستعدی ،  دلچسپی اور محنت کے ساتھ اس منحنیم کتاب کا ترجمہ کیا ’ ’ جنت ‘ ‘ کے موضوع کی طرف ان کی رغبت ان کی صالحیت کی دلیل ہے ، اور شستہ ، شگفتہ ، اور برجستہ ترجمہ سے ان کی صلاحیت کی غمازی ہوتی J







ہے ، دنیا میں جب بھی کوئی کام صالحیت اور صلاحیت کے ساتھ کیا جا تا ہے ، تو وہ خلق اور خالق دونوں کی نگاہ میں مقبول ہوتا ہے ، اور یہی تو قع اس کتاب کے ساتھ قائم کرنی چاہئے ۔ لوگ کہتے ہیں اور صیح کہتے ہیں کہ جان ، ن ' ' کے ماڈہ میں ' ' چھپنا ' ہے اور جنت کو جنت اس لئے بھی کہتے ہیں کہ وہ نگاہوں سے چھپی ہوئی ہے ، شاید اسی کا اثر ہو کہ بعض اہل خیر اس میں حصہ لیکر بھی لوگوں کی نگاہوں سے چھپے رہنا چاہتے ہیں ، حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں وہ بندہ بہت زیادہ پسندیدہ ہے جو اپنے آپ کو اور اپنے عمل خیر کولوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھے لیکن وہ ذات جو ہر ظاہر اور پوشیدہ چیزوں کو جانتی ہے اس کے سامنے کوئی عمل چھپ نہیں سکتا اور اس کے علم کی بنیاد پر اس کی بارگاہ میں دو پل خیراجر وثواب کا تحق ضرور قرار پاۓ گا ، اللہ تعالی اپنے ایسے پوشیدہ رہنے والے بندوں کے عمل خیر کو قبول فرماۓ ، مصنف مترجم اور معاونین کی سعی''سعی مشکور قرار پاۓ ، مجھے اس سے خوشی ہے کہ میا ہم اور وقیع کتاب''دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد سے شائع ہورہی ہے ، اللہ تعالی سبیل السلام کے نام کی برکت سے اس کے تمام منتسبین ومتعلقین کو راہ سلامتی پر چلاۓ ، اور ظاہر ہے کہ راہ سلامتی پر چلنے کا انعام ہی''جنت ' ' ہے ، اللہ تعالی اس انعام سے ہم سب کو سرفراز فرماۓ ۔ ی سطر میں جب میں ختم کر رہا ہوں تو یہ حقیقت جلوہ گر ہو کر سامنے آرہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو وقت مقررہ پر دنیا سے جانا ہے ، ایک مومن کی سب سے بڑی آرز و اور حسین تمنا جو ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آخری وقت اس کے کان میں یہ صداۓ دل نواز آنے لگے : ۱۲






يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي اے اطمینان والی روح اتو اپنے پروردگار إلى ربك راضية مرضية فادخلی کی طرف چل ، خوش ہوتی ہوئی اور خوش في عبادي وادخلي جنتی ۔ کرتی ہوئی ، پھر تو میرے ( خاص ) بندوں ( الفجر : ۳۷-۳۰ ) میں شامل ہوجا ، اور میری جنت میں جا داخل ہو ۔ مطابق یکم رجب ۵۱۳۲۳ محمد رضوان القاسمی ناظم دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد ۳۰ اگست ۲۰۰۳ ء




... عرض مترجم الحمدلله الذي خلق الجن والانس لعبادته ، وجعل الجنة مثوى لأهـل طـاعـتـه ، والـصـلاة والسلام على أفضل الخلق محمد بن عبدالله اصطفاه لتبليغ رسالته ، وأداء أمانته ، وعلى آله واصحابه اقتبسوا النور من مشـكـاة نبوته ، وبذلوا النفس والـنـفـيس لتحكيم شريعته وعلى من دخل في ملته ، ثم استقاموا على محجته واستنوا بسنته أمابعد ! قرآن کریم کی بے شمار آیات اور زبان نبوت سے نکلی ہوئی ان گنت احادیث مبارکہ اس بات پر صراحتا یا اشارہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت وطاعت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، اور اس وسیع وعریض کائنات ، اور زمین و آسمان کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات کو اشرف المخلوقات حضرت انسان کے لئے وجود بخشا تا کہ وہ ان سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ عبادت الہی میں مصروف رہے ، اور اپنی زندگی کی مادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوۓ اپنے مقصد تخلیق کی تکمیل میں لگار ہے ۔ 18 / 425 ۱۸






اللہ تعالی نے عالم ارواح میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا تھا اور ان سے ایک عہد لیا تھا جس کو عہد اگشت ' ' کہا جا تا ہے ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم الﷺﷺ کی تخلیق کے بعد ان کی پیٹھ سے پیدا ہونے والی تمام اولا دکو نکالا اور پھر ان کی اولاد کی پیٹھ سے قیامت تک پیدا ہونے والی تمام ذریت کو نکال کھڑا کیا اور ان سے اپنی ربوبیت وعبوبیت کا عہد و پیمان لیا ، اس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وإذ أخذ ربك مـن بني آدم ( اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے ) مـن ظـهـورهـم ذريتهم جب آپ کے پروردگار نے اولا دآدم وأشهدهم على أنفسهم آل کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا ، اور الست بربكم قالوا بلى شهدنا ، أن خود ان کو اپنے آپ پر گواہ بنایا اور تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن ( کہا ) کیا میں تمہارا پرور دگار نہیں هذا غافلين أوتقولوا إنتا ہوں ، وہ بولے ، کیوں نہیں ( ضرور أشرك آباءنا من قبل وكنا ہیں ) ہم گواہی دیتے ہیں ، ( یہ اس ذرية من بعدهم أفتهلكتابنا لئے ہوا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بے خبر ( الاعراف : ۱۷۲-۱۷۳ ) تھے ، یایوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے فعل ا لمبطلون - باپ دادا پہلے ہی سے کرتے آۓ اور ہم تو ان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ تو کیا تو ہمیں ( اگلے ) اہل باطل کے کرتوت کی پاداش میں ہلاک کر دیگا ۔ - - 19






یوں تو قیامت کے دن انسان کے حساب ومواخذہ کے لئے یہی عہد و پیاں کافی تھامگر اللہ تعالی نے مزید اپنے فضل و کرم اور رحمت بے پایاں سے انبیاء ورسل کو ہدایت وارشاداور اس وعدہ کی یاد دہانی کرانے کے لئے بھیجا ، اور ان کے ساتھ آسانی کتابیں اور صحیفے بھیجے تا کہ وہ دستورالعمل اور ضابطہ حیات کا کام دے سکیں ۔ عدل و انصاف کا تقاضا تھا کہ کوئی دن ایسا مقرر کیا جائے جس میں لوگوں کے اچھے یابڑے اعمال کا وزن کیا جائے اور ان کا پورا پورا بدلہ دیا جاۓ ، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قیامت کا دن مقرر کیا ہے ، جس دن سب کے سب حساب و کتاب کے لئے ارض محشر میں جمع کئے جائیں گے اور میزان عمل قائم کر کے نیکیوں اور برائیوں کو تولا جائے گا ، جنہوں نے اللہ کی مرضیات کے مطابق زندگی گذاری ہوگی اورنفس و شیطان کی پیروی سے اپنے آپ کو باز رکھا ہوگا ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا ، اور ان کے عیش وآرام کے لئے اللہ نے ایسا گھر تیار کر رکھا ہے جو ہرقسم کی نعمتوں سے آراستہ حسن و جمال اور زیب و آرائش کی چیزوں سے مزین ہوگا ، اس گھر کا بنیادی نام اللہ نے ' ' جرت ' ' بتایا ہے ، جس کے لغوی معنی ' ' گھنے باغ ' ' کے ہیں ، کیونکہ اس میں دیگر بے شمار نعمتوں اور لذتوں کے علاوہ گھنے اور سایہ دار درخت بھی ہوں گے ، اس مناسبت سے اس کا نام جنت'' رکھا گیا ، ویسے اس کے اور بہت سے نام ہیں جن کو انشاء اللہ آپ زیر نظر ترجمہ کتاب کے باب ' ' جنت کے نام اور ان کے معانی میں ملاحظہ فرمائیں گے ، می توان خوش نصیبوں کا ذکر تھا جنہوں نے اپنی پوری ز ندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزاری ہوگی ، رہے وہ لوگ جو غفلت میں پڑے رہے اور انہوں نے فرصت ہستی کو کفر و الحاد ، شرک و بت پرستی ، یا گناه و معصیت میں مبتلا رہتے ہوئے ضائع کر دیا تو ان کے لئے اللہ نے آگ ، گرم پانی ،

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.